مولانا ظہور احمد بھگوی صاحب رحمتہ اللہ علیہ صاحب بڑے اللہ والے گزرے ہیں ان کے ایک خادم منیراحمد بہت مزاحیہ تھے‘ ایک دن منیراحمد اپنے پیر سے کہنے لگےآپ کے اتنےامیر امیر مرید ہیں کسی کو کہہ کر مجھے حج تو کروادیں۔ مولانا ظہور احمد بھگوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر تو آئندہ سےمذاق کرنا چھوڑ دے تو میں بات کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ یہ بات اسٹامپ پیپر پر لکھی گئی۔
اب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرید کو حج کاکہہ دیا‘ انہوں نے سعادت سمجھی کہ ہمارے مرشد کا حکم ہے اس لیے انہوں نے حج کا انتظام کیا۔اس وقت حج کیلئے مکہ بحری جہاز سے جانا ہوتا تھا۔ حضرت کیساتھ دو تین خدام اوربھی تھے، منیر احمد بھی حضرت کے ساتھ تھے، اب حج کیلئے گئے حج کیا،حلق کرایا، حلق سر منڈوانے کو کہتے ہیں اس کے بعد احرام کھولا احرام کھول کر پھر طواف زیارت کرنے گئے، رمی کی۔
ہن رب نال گلاںکرن دے:واپسی میں (اس وقت ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے گدھوں اور خچروں پر سفر کرتے تھے )جب منیر احمد گدھے پر سوار ہوا توکہنے لگا’’مُڑ ظہور احمدا! ہن رب نال گلاں کرن دے‘‘ مولانا ظہور احمدرحمتہ اللہ علیہ کہنے لگے:’’تو پھر مذاق کر رہا ہے؟‘‘منیر احمد کہنے لگا:ناں! ناں! پھر اللہ سے کہنے لگا یا اللہ !ساڈے جھنگ دا اک رواج اے جیڑھا جنھاوڈا خبیث ہوندااے‘‘ جتنا بڑا مجرم ہوتا ہے‘ جتنا بڑا چور ہوتا ہے‘ اتنا اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا دیتے ہیں اور سر مونڈ دیتے ہیں۔ ’’اللہ پاک سر دے وال وی گئے تے کھوتے اُتے وی بہہ گیا، تے مُڑ ہن بخشش نہ ہوئی تے گل نہ بنی ۔‘‘مولانا ظہور احمدرحمۃ اللہ علیہ کہنے لگے ’’تو مُڑ بکواساں شروع کردیتیاں نے ‘‘منیر احمد کہنے لگا ناں! ناں! ظہور احمدا’’ ہن رب نال گلاں کرن دے ‘‘بس اب یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں‘ ایک صاحب کمال درویش، وقت کے ابدال وہاں سے گزر رہے تھے کیونکہ جتنی بھی باکمال ہستیاں ہوتی ہیں حج پر مکہ میںضرور ہوتی ہیں۔ وہ وہاں سے گزرنے لگے توکہنے لگے ’’بھئی کیا کر رہے ہو؟ اس کو باتیں کرنے سے نہ روکو ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ جس کیفیت کے ساتھ یہ رب سے باتیں کر رہا ہے اور رب کی رحمتیں اس پر اتر رہی ہیں۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو مولانا ظہور احمدرحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے:’’ بس ہن گلاں کر بس چھوڑ تو جان تیرا رب جانے‘‘
خوش قسمت لوگ: اللہ سے باتیں کرنا جس کو آ گیا بس اس کاکام بن گیا جس کو اللہ سے باتیں کرنا نہیں آتیں،سمجھ لیں اللہ اس کی سننا نہیں چاہتا‘ اس لیے اسے اس کی توفیق نہیں ملی، توفیق کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟ عطا کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟ خوش قسمت ہو !جو رب نے تمہیںتسبیح پکڑوا دی ہے۔ خوش قسمت ہو!جو رب نے تمہیںمصلیٰ پر بٹھا دیا ہے۔ خوش قسمت ہو !جورب نے تمہیںتسبیح خانہ میں بلا لیا ہے۔ خوش قسمت ہو! جورب نے نماز پڑھا دی ہے ۔ خوش قسمت ہو!جورب نے تمہیںدرود پاک پڑھوا دیا۔ یہ راز و نیاز ہر کسی کو میسر نہیں۔ ارے!کعبہ کے قریب بیٹھے ہوئوں کو میسر نہیں۔
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار!:اسی سال حج پر سیدناامیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ کے گھر جہاںاب مسجد بنادی گئی ہے جا کر غالباً مغرب کی نماز پڑھی۔ نماز میں میرے ساتھ ایک صاحب بیٹھے تھے جو مجھے کوئی بات سنانا چاہ رہے تھے۔ مغرب سے کافی دیر پہلے کے بیٹھے ہوئے ہوں گے ۔ میں جب ان کے پاس بیٹھا تو ان کی کیفیت پر میں نے توجہ ڈالی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ اس وقت دنیا میں نہیں ہے یہ اللہ کی ذات کے ساتھ رابطے میں ہیں
؎دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
یار کی تصویر میں ایسے مستغرق کہ اگراس کے ٹکڑے بھی کر دو
توبھی پتہ نہیں چلے گا۔
اخلاصِ قلبی، وقوفِ قلبی اللہ کی ذات
کیساتھ پھر اسی وقت مجھے یہ شعر یاد آیا۔
؎دنیا کے مشغلوں میں ہم باخدا رہے
سب کے ساتھ رہ کر بھی سب سے جدا رہے
ہمیں علم نہیں ہے کہ یہ اللہ کا بندہ دنیا کے کاموں میں مشغول پھرتا ہے ۔ اس کا رب کی ذات کے ساتھ کتنا تعلق ہے ۔ہم ظاہر کے دیوانے ہیں، ہم ظاہری پیمانے لے کر بندوں کو تولتے ہیں ۔ ظاہری پیمانوں کے ساتھ انسانوں کی پرکھ کرتے ہیں ۔
اس کا نمبر بولتاہے!:ایک صاحب سے میں نے کہا:’’ ملک میں نے تمہیں فون کیا تم تو فون اٹھاتے ہی نہیں ۔ساتھ ایک اور صاحب کھڑے تھے وہ کہنے لگے اصل میں اس کو آپ کے نمبر کا پتہ نہیں تھا۔ میں نے کہا کیا جب یہ فون کرتا ہے توتم اٹھا لیتے ہو؟ اس نے کہاکہ اس کاتو نمبر بولتا ہے۔ یقین جانیئے یہ لفظ میرے اندر اترگئے کہ’’ اس کا نمبر بولتا ہے‘‘ کیوں کہ اس سے محبت تھی ،اس سے شناسائی تھی ،اس سے تعلق زیادہ تھا، اس کا نمبر Known تھا، اگرچہ کالیں زیادہ آئیں لیکن اس کا نمبر واقفیت رکھتا ہے۔ اس کا نمبر شناسائی رکھتا ہے۔ آپ کی فریاد تیز رفتار سسٹم سے پہنچادی جاتی ہے: ہم اکثر کالیں بھیجتے ہی نہیں کبھی کبھی کوئی کال کردی۔ فرشتے بھی بیچارے ان کے بھی ڈیجیٹل لمبے چوڑے ایکسچینج ہیں۔ کھربوں اربوں کے فرشتے بھول تو نہیں سکتے ۔ویسے میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں کہ فرشتے بھی کہتے ہونگے ہیں کہ پتہ نہیں کہاں سے کوئی کال آئی ہے۔فی الحال رجسٹر میں ڈال دو۔ Pending میں ڈال دو ۔اب وہ Pending نہیں سن رہے ۔کال آ گئی ‘ یوں چند لمحوں میں انہوں نے مس کال دی ۔مس کال فوراً کال بیک ہوئی اور کیسے ہوئی؟ (جاری ہے)
جس کو رب سے باتیں کرنے کا سلیقہ آگیاوہ پاگیا اس کا کام بن گیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں